اس بیمار معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ عورت پر تشدد کوئی بھی ہو جیسے جنسی، جسمانی، جذباتی وغیرہ ہمارے ہاں مرد ثواب سمجھ کر کرتا ہے۔ عورت کو کمزور سمجھ کر مرد اپنی مردانگی مارپیٹ اور گالم گلوچ کر کے دکھاتا ہے-
احسن رضوی
مہذب اور خوشحال معاشرے کے قیام کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے اور ہر فردِ واحد کو اپنی زندگی اپنے حساب سے بسر کرنے کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔ اسی لئے سیانے کہہ گۓ معاشرہ ہم سے ہوتا ہے ہم معاشرے سے نہیں۔ لیکن کیا کیا جاۓ کہ ہماری سوچ اس کے برعکس ہے ہم بیمار معاشرے کی پیوند لگی سوچ کے مطابق خود کو ڈھالنے لگ جاتے ہیں اور اس کے من مانے قواعد و ضوابط کو ہی معتبر مان کر سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل، سوشل میڈیا پر اداکار محسن عباس کی اہلیہ فاطمہ سہیل پر گھریلو تشدد سے متعلق خبریں زیر بحث رہیں۔ سماجی رابطے کے ہر پلیٹ فارم پر بھرپور انداز میں دونوں اطراف سے الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ ‘ عورت نے کچھ تو کیا ہوگا جو مرد کو ہاتھ اٹھانے کی ضرورت پیش آئی ‘ یہ ایک عام بیانیہ ہے جو اکثر کچھ لوگ ایسے مواقعوں پر تشدد کا نشانہ بننے والی کے لئے استعمال کرتے ہیں، کچھ ایسے ہی بیانئے محسن عباس کے کیس میں بھی سننے کو ملے۔ یہ بیانیہ جسکی لپیٹ میں پورا معاشرہ ہے صرف اس لئے استعمال کی جاتی ہے تاکہ متاثرہ انسان کا مقدمہ کمزور ہوسکے- ایسے بیانئے اس بیمار سوچ کو جنم دیتے ہیں جس کے مطابق عورت مرد کی مرضی کے خلاف کچھ کرے تو اس پر تشدد کرنا مرد کا حق ہے۔
عورت پر تشدد کوئی بھی ہو جیسے جنسی، جسمانی، جذباتی وغیرہ ہمارے ہاں مرد ثواب سمجھ کر کرتا ہے۔ عورت کو کمزور سمجھ کر مرد اپنی مردانگی مارپیٹ اور گالم گلوچ کر کے دکھاتا ہے۔ جو اس بیمار معاشرے کی روایت بن چکی ہے۔ لیکن کیا ہر عورت کے پاس اتنے وسائل اور جرات ہوتی ہے کہ وہ فاطمہ اور اس جیسی دوسری خواتین کی طرح میڈیا کا سہارا لے کر خود پر ہونے والی ظلم و زیادتی کے لیے آواز بلند کر سکیں۔ یا اس معاشرے کی خودساختہ کھوکھلی دیوار کو پھلانگ کر اپنے حق میں آواز بلند کر سکیں۔
چلو مان لیا وہ ایسا کر بھی لیتی ہیں تو جو خواتین کسی ڈر و خوف کے بغیر خود پر ہوئے تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں تو کیا ہمارے ادارے اتنے مستحکم ہیں کہ انہیں انصاف دلوا سکیں؟ جو واقعات ہمیں ٹی وی پر یا سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں ان کو دیکھ کر کوئی ایک بیانیہ قائم کرنا صحت مندانہ طرز فکر نہیں نہ ہی مار پیٹ گالی گلوچ کسی مسئلے کا حل ہے۔ ہمیں عورت کے حوالے سے اپنی سوچ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں ایسے سینکڑوں واقعات جو پہلے گھر کی چار دیواری میں پھر عورت کے ساتھ ہی قبر کی چار دیواری میں دبا دیے جاتے ہیں جن کے بارے میں اس عورت کے ماں باپ تک واقف نہیں ہوتے۔ کہاں کی انسانیت ہے؟ کیا عورت انسان نہیں؟ افسوس! مرد نے عورت پر حاکمیت کرنا ہی سیکھا ہے۔ عورت پاؤں میں پڑی زنجیر توڑ کر اپنے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ نہیں کرتی کیونکہ بیٹی رخصت کرتے وقت اس کے کان میں یہی بات ڈالی جاتی ہے “کہ اب شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلے”۔
شاید والدین بیٹیوں کو یہ بات اس لیے سمجھاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ طلاق یافتہ عورت کو قبول نہیں کرتا۔ اگر اس کے بچے ہیں تو وہ ان کو باپ کے نام کے بنا کیسے اس معاشرے میں پروان چڑھائے گی؟ یہ سوچ اسے اندر ہی اندر ختم کرتی رہتی ہے۔ آخر کیوں ایک عورت اپنی شناخت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی؟ کیوں وہ مرد کی درندگی کا نشانہ بنے اور اپنی زندگی مرد کے ساتھ گزارنے پر پابند ہو۔ یہ سراسر ظلم ہے جو اب تک متشدد سوچ اور نظریہ رکھنے والے لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں پنپ رہا ہے۔
مرد کو عورت کے لیے ایک باشعور انسان ہو کر ان تمام مسائل کو سمجھنا چاہیے جو تشدد کے زمرے میں آتے ہیں اور اخلاقی طور طریقے سے انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نا کہ مار پیٹ سے۔ ان حالات میں ایسے اداروں کے قیام کی ضرورت ہے جن کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کُھلے ہوں اور ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں تاکہ کسی بھی عورت کو اپنی عزت نفس پامال کر کے میڈیا یا سوشل میڈیا کا سہارا نہ لینا پڑے۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا جرم نہیں بلکہ دوسرے کو کمزور جان کر اس پر تشدد کرنا جرم ہے۔
Leave A Comment