ڈپریشن ایک حقیقت

بظاھر خوش باش نظر آنے والا انسان اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہا ہوتا ہے- اس سے قطع نظر کہ وہ معاشرے کے کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے، اسکی کیا جنس ہے، کتنی تعلیم ہے یا کیا عمر ہے- ڈپریشن اسے ناامیدی کے ایسے کنویں میں دھکیل دیتا ہے جس باہر نکلنا اکیلے انسان کے بس میں نہیں ہوتا- اسے اپنوں کے ساتھ اور بروقت علاج کی ضرورت ہوتی ہے-

 

احسن رضوی

گھر کا ماحول شام سے ہی سوگوار تھا۔ کل فرحان کا میٹرک کا رزلٹ آنا تھا اور چونکہ اس نے نویں جماعت میں کوئی خاص نمبر نہیں لیئے تھے اس وجہ سے والدین کو اس دفعہ بھی کوئی امید نہیں تھی۔ والد صاحب تو یہاں تک کہہ چکے تھے کہ اگر اس دفعہ اچھے نمبر نہیں آئے تو میں آگے اس کی پڑھائی کا خرچہ نہیں اٹھائوں گا۔ بہتر ہے کوئی ہنر سیکھے اور گھر کے معاش میں میرا ہاتھ بٹائے۔ والدہ بس بھیگتی آنکھوں سے خدا کے حضور دعائوں میں مصروف تھی۔ ادھر فرحان جو سارا سال شدید محنت اور دل لگی سے پڑھائی کرنے کے بعد اس پرامید تھا کہ اس دفعہ اس کے نمبر بہت اچھے آئیں گے، اس طرح کی باتیں سن کر دلبرداشتہ ہوا جا رہا تھا۔ تصور میں خود کو والدین کی عدالت میں کھڑا دیکھ رہا تھا کہ جس میں ہاتھوں میں اس کا نتیجہ پکڑے جج اس کے کرخت والدین ہیں اور وہ کسی ایسے سنگین جرم کا مرتکب ہو چکا ہے جس کی معافی کسی صورت ممکن نہیں۔ بس اسی سوچ میں رات ہوگئی۔ صبح سویری فرحان کے والد صاحب نتیجہ دیکھنے کے لیئے اخبار خریدنے نکل پڑے، اخبار فروش کے پاس کھڑے ہو کر ہی فرحان کا رول نمبر تلاش کرنا شروع کیا اور اچاانک ان کی آنکھوں کی چمک دوگنی ہوگئی، فورا” جیب سے پین نکال کر نتیجہ پر گول دائرہ بنایا اور قدرے بھاگتے ہوئے واپس گھر پہنچے۔ اندر داخل ہوتے ہی تقریبا” چلاتے ہوئے بولے “شکر الحمد اللہ، ماشااللہ، ہمارے بیٹے نے ہمارا نام روشن کردیا ہے۔ یہ سنتے ہی فرحان کی والدہ تیزی سے فرحان کے کمرے کی طرف بڑھی، دروازہ کھولتے ہوئے زبان پر آیا “فرحان بیٹا مبارک ہو، آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” مگر الفاظ منہ میں ہی رہ گئے، آنکھوں کے سامنے فرحان کی پنکھے سے لٹکتی لاش جھول رہی تھی۔

 

ڈپریشن حقیقت ہے اور ناسازگار حالات کی صورت میں درج بالا نوعیت کے علاوہ اس سے بھی خطرناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں تقریبا 10 فیصد یا پھر دو کروڑ افراد ایسے واقعات کا شکارہو چکے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ جس میں ہر 1000 افراد میں سے 7 افراد خود ہی اپنے قتل کا موجب بن چکے ہیں۔ ان کی وجوہات کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے یہ سب کچھ جاننا آج کے دور میں ہر انسان کے لیئے انتہائی اہم ہو چکا ہے۔

 

انسانی دماغ خدا کی بہترین اور حیرت انگیز تخلیقات میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسی خود کار مشین ہے جو حجم میں چھوٹے ہونے کے باوجود پورے جسم کو کنٹرول کرتی ہے۔ جہاں پورے جسم میں خرابی یا بیماری آنے کا خدشہ رہتا ہے وہیں دماغ بھی ایسی مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مشکل کا نام “ڈپریشن” ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو با آسانی اپنی موجودگی ظاہر نہیں کرتی لیکن اس سے متاثرہ شخص کا اگر بروقت علاج نا کیا جائے تو نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ امتحانات میں نمبر کم آنا، دوستی یا ریلیشن شپ میں مسائل ہونا، ازدواجی زندگی خراب ہونا، کسی چیز سے خوفزدہ ہوجانا، کوئی پرانا یا بچپن کا ایسا واقعہ جس کی یادیں باقی ہوں، منشیات یا پھر میڈیکل دوائیوں کا عادی ہونا یا پھر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی وجہ نا ہو۔ یاد رکھیں کہ ڈپریشن ہونے کی وجہ کسی صورت کا دماغ کا کمزور ہونا نہیں ہے۔ یہ ایک بیماری ہے اور بیماری کسی کو بھی ہوسکتی ہے، چاہے اس کی کوئی براہ راست وجہ موجود ہو یا نا ہو۔ بظاھر خوش باش نظر آنے والا انسان اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہا ہوتا ہے- اس سے قطع نظر کہ وہ معاشرے کے کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے، اسکی کیا جنس ہے، کتنی تعلیم ہے یا کیا عمر ہے- ڈپریشن اسے ناامیدی کے ایسے کنویں میں دھکیل دیتا ہے جس باہر نکلنا اکیلے انسان کے بس میں نہیں ہوتا- اسے اپنوں کے ساتھ اور بروقت علاج کی ضرورت ہوتی ہے- کیوں کہ ماہرین کے مطابق ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈپریشن دماغ میں کیمیائی تبدیلیوں سے بھی ہو سکتا ہے۔

 

ڈپریشن کی نشاندہی آپ ماہرین کی بتائی ہوئی علامات سے باآسانی کر سکتے ہیںں۔ جیسے کہ اداسی یا مایوسی کی کیفیت میں رہنا اور اپنے اندر نا امیدی کا عنصر محسوس کرنا، وہ کام جو کبھی نہایت دلجمعی یا دلچسپی سے کیئے جاتے تھے اب ان میں دل نا لگنا اور جلدی اکتا جانا، جسم میں کمزوری محسوس کرنا، ذیادہ وزن اٹھانے کی ہمت نا ہونا یا پھر محنت سے جی چرانا۔ روز مرہ کے کاموں کو وقت پر انجام نا دینا، احساس کمتری کا بڑھ جانا، چاہے وہ کلاس میں موجود کسی طالب علم سے ہو، دفتر میں کسی کولیگ سے، کسی رشتہ دار یا پھر اپنے کسی شوق یا ہنر کی وجہ سے کسی دوسرے انسان سے خود کو کمتر محسوس کرنا۔ مثال کے طور پر کوئی مصوری کا شوق رکھتا ہے تو وہ انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی انسان کی بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھ کر اس کا اپنے کام سے موازنہ کرے گا اور بلا وجہ اپنے ہی کام میں نقص نکال کر احساس کمتری کا شکار ہو جائے گا، ماضی یا بچپن میں گزرا کوئی واقعہ یاد کر کے اپنی غطی پر پشیمان ہونا۔ چاہے اس میں آپ کی غلطی ہو یا نا ہو اسے سوچ کر اپنے آپ کو فضول یا نالائق تصور کرنا، اپنے آنے والے کل سے امید کا ختم ہوجانا اور یہ یقین کرلینا کہ میں کچھ بھی کرلوں غلط کو صحیح یا خراب کو ٹھیک نہیں کرسکتا، خود کشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا اور نیند اور بھوک کی مقدار کا ختم ہوجانا۔

 

اگر آپ میں یا آپ کے کسی بھی قریبی انسان میں اس طرح کی علامات پائی جاتی ہیں تو انتہائی ضروری ہے کہ اس کا علاج کروایا جائے۔ علاج کے مختلف طریقے ہیں جس میں کائونسلنگ، ادویات، غذا اور ورزش شامل ہے۔ ایک اچھے ماہر نفسیات سے رجوع کیجیئے، اسے بس اپنے مسائل بتائیں، وجہ وہ خود تشخیص کرسکتا ہے اور آپ کے دماغ کو مثبت اور سیدھے طریقے سے سوچنے پر لا سکتا ہے۔ اکثر اوقات اس کا علاج مختلف اقسام کی ورزش اور غذا سے بھی ممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق روز مرہ زندگی میں پھل، اجناس، خشک میوہ جات، سمندی غزائیں، زیتون کا تیل، دہی، پنیر، لہسن، پالک، شکر قندی اور خاض طور پر سرخ گوشت کی کم مقدار، شلجم، کھیرا، گاجر اور اسی طرح کی مفید غزائیں لینے سے ڈپریشن پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہاں پر ان غذا کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے ڈپریشن جیسا مرض ہم خود اپنے اندر اتار لیتے ہیں۔ جسمیں گھی تیل میں تلے ہوئے کھانے، فاسٹ فوڈ، اور ذیادہ چربی والی غذائیں سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ الکوحل یا کسی بھی قسم کی نشہ آور ادویات، کیفین، چائے، چاکلیٹ اور کولڈ ڈرنک کا ذیادہ استعال بھی ڈپریشن کے لیئے دماغ کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

 

اس کے علاوہ ہلکی پھلکی ورزش کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنائیں، روزانہ صرف آدھے گھنٹے چہل قدمی سے آپ اپنے اندر نہایت خوشگوار تبدیلی محسوس کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ہفتے میں تقریبا” 150 منٹ جسمانی ورزش انتہائی اہم ہے۔ گھر سے باہر نکلیں، لوگوں سے ملاقات کریں، اجنبی افراد سے میل جول بڑھائیں، نئے دوست بنائیں اور ہمیشہ ایسے مقامات یا سیرگاہیں دیکھنے کی جستجو میں رہیں جہاں آپ زندگی میں پہلے نہیں گئے۔ یہ عمل آپ کے دماغ پر اس قدر خوشگوار اثر چھوڑے گا جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔

 

اپنا اور اپنے آس پاس لوگوں کا خیال رکھیں، اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت کسی اور کے لیئے نکالنے سے آپ اس کی قیمتی جان بچا سکتے ہیں، خوشیاں بانٹنے سے مزید بڑھ جاتی ہیں، اور گھر میں، اپنے کمرے میں یا اپنے خیالات میں ہی خود کو قید رکھنے سے آپ مزید پریشانیوں کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جھوٹی مسکراہٹوں سے باہر آئیں اور ایسی سچی خوشی چہرے پر سجائیں جسے آپ کے پیارے، آپ سے محبت کرنے والے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی ترجیحات کو بدلیں، بچے کا امتحانات میں اچھے نمبر لینا اتنا ذیادہ اہم نہیں جتنا اس کے اندر حصول علم کے لیئے کوشش کرتے رہنا اہم ہے، اسی طرح کسی کی معاش، رہن سہن، انداز گفتفگو، یا کم علمی پر اس سے ناراضگی کا اظہار نہیں بلکہ اس کی نہایت شائستگی سے اصلاح میں مدد کی ضرورت ہے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو یقین جانیئے ایک موقع ایسا بھی آتا ہے کہ جب انسان یہ تصور کرنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی کا اب کوئی مقصد نہیں، اور اس کے اس دنیا سے چلے جانے سے ہی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اور پھر آخر کار وہی ہوگا جو فرحان کے ساتھ ہوا، خوشی گھر میں آئے گی، لیکن اس پر مبارک باد دینے والا جملہ ادھورا رہ جائے گا۔
2020-07-02T15:17:21+00:00

Leave A Comment